APP KI PSAND
یہ کیسا سفر آغاز کیا یہ کیسی گردش پاؤں میں ہے
رستے میں کہیں رُکتے ہی نہیں منزل پہ کوئی ملتا بھی نہیں
رستے میں کہیں رُکتے ہی نہیں منزل پہ کوئی ملتا بھی نہیں
میر ے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نھیں
آپ پھو لوں کے خریدار نظر آتے ہیں
کل جسے چھو نھیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں
آپ پھو لوں کے خریدار نظر آتے ہیں
کل جسے چھو نھیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں
دنیا تمھیں اس موڑ پر لے آئے گی اےک دن
ھنسنا تو بڑی بات ھے رو بہی نھ سکو گے۔
تو نے ہی کہا تھا کشتی پہ بوجھ ہوں میں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ
ہم اَنا مست، تہی دست بہت ہیں مُحسن
یہ الگ بات کہ عادت ہے امیروں جیسی
چاہنے والے مُقدر سے ملا کرتے ہیں فراز
وہ اِس بات کو تسلیم کرے گا میرے جانے کے بعد
جو ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سرِ بازار
جو کہہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں
پلکوں کے بند کو توڑ کہ دامن پہ آ گرا
اک آنسو میرے صبط کی توہین کر گیا۔
اتنی خوش رنگ نظر جان بھی لے سکتی ہے
اُس سے کہنا کہ وہ نکلے تو چُھپا کر آنکھیں
سمندر میں فنا ہونا تو قسمت کی کہانی ہے
جو مرتے ہیں کناروں پہ مجھے دُکھ اُن پہ ہوتا ہے
لہو لہان تھا میں اور عدل کی میزان
جھکی تھی جانبِ قاتل کہ راج اس کا تھا
تجھے گلہ ہے کہ دنیا نے پھیر لیں آنکھیں
فراز یہ تو سدا سے رواج اس کا تھا
یہ تیری آنکھوں پہ حلقے سے پڑ گئے کیسے
مجھے تو تُو نے کہا تھا کہ تُو بھلا دے گا؟
خدا سلامت رکھے انکو جو ہم سے نفرت کرتے ہیں
پیار نہ سہی نفرت ہی سہی ، کچھ تو ہے جو صرف ہم سے کرتے ہیں
تلخیاں کیسے نہ ہوں اشعار میں
ہم پہ جو گزری ہمیں یاد ہے سب
اسکے بدن کو دی نمو ، ھم نے سخن سے
اور پھر اسکے بدن کے واسطے اک قبا بھی سی گئی
پردیس میں اس بات پہ خوش ہیں مرے بچے
میرے لیے رہنے کو مکاں چھوڑ گئے ہیں
جو چل سکو تو کوئی ایسی چال چل جانا
مجھے گماں بھی نہ ہو اور تم بدل جانا
درد ایسا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
بھول شاید بہت بڑی کر لی
دل نے دنیا سے دوستی کر لی
تم محبت کو کھیل کیتے ہو
ہم نے برباد زندگی کر لی
Post a Comment